Islahih_writer

Add To collaction

اب خالص دودھ ،دہی اور گھی کہاں سے لائیں؟

 گاؤں میں صبح صبح نکلئے ، کوئی نہ کوئی دودھ کابرتن لئے ہوئے نظر آہی جاتاہے ،ان میں سے کچھ دودھ لانے والے ہوتے ہیں اور کچھ دودھ پہنچانے والے ۔ان کے برتن میں دودھ ضروررہتا ہے مگربہت کم میں دودھ جیسا دودھ رہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ دودھ ضرورت سے زیادہ نہیں ہوتا ہے ۔ شہروں کی طرح آمدنی کے حساب سے سب کی اپنی اپنی ضرورت ہے۔کچھ چائے بناتے ہیں ، بچوں کوپلا تے ہیں ، ایک آدھ گلا س خود بھی پی لیتے تھے۔ کچھ کے ہاں ان میں سےدودھ کاکوئی ایک  ہی  استعمال ہے۔
بتاتے ہیں کہ پہلے صبح کا منظر کچھ اور ہی ہوتا تھا ۔ چھوٹے چھوٹے برتن نہیں نکلتے تھے ، اکثریت کے ہاتھوں میں دودھ کی بالٹیاں ہوتی تھیں۔ لوگ اپنی بھینس یا گائے کا دودھ دو ہنے کے بعد سار ( باڑے) سے گھر جاتے تھے...دودھ کو چھلکنے سے بچانے کیلئے سنبھل سنبھل کرچلتے تھے ۔ یہ اس وقت ہوتاتھا جب سب کے پاس اپنی اپنی بھینسیں اور گائیں تھیں، سب کے گھر دودھ تھا۔ اس وقت خالص دودھ ، دہی، مکھن اور گھی کی کثرت تھی ۔ مہمانوں کی ضیافت موٹی ملائی( بالائی) والے دودھ سے کی جاتی تھی ۔گھر کے لوگ بھی دودھ کا استعمال بار بار کرتے تھے، صبح صبح دودھ پیتے تھے، دہی کا ناشتہ کرتے تھے ، دہی اور گڑ کاشربت بناتے تھے، لسی پیتے تھے ، مٹھا پیتے تھے اور دودھ میں روٹی ترکر کے کھا تے تھے۔ اس دور کے لوگ بتاتے ہیں کہ باسی روٹی اوردودھ کا ناشتہ عام تھا،  یہ غذائیت  سے بھر پور ہوتا تھا۔ اس زمانے میں لوگ محنت کے عادی تھے ، کھیتی باڑی اور مویشی پالن روزی روٹی کا واحد ذریعہ تھا۔ بڑے بوڑھے کھیت جانے سے پہلے اوربچے اسکول جانے سےپہلے چار پانچ باسی روٹی لیتے تھے ، ان کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑ ے بنا تے تھے ، انہیں دودھ میں بھگوتے تھے ، پھر یہی چمچ یاہاتھوں سے کھاتے تھے ، اس سے توانائی ملتی تھی ، جسم مضبوط ہو جاتا تھا ، بڑے سے بڑ ا اور انتہائی محنت کا کام کرنے کے بعد بھی تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوتاتھا ۔ورزش اور جم کے بغیر بدن کسرتی ہوجا تا تھا ، گٹھیلا ہوجاتا تھا۔پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ اگر اس زمانے میں دودھ نہ ہوتا تو کھیتی کسانی کا کام مشکل ہوجا تا، لوگ تھک کر چور ہوجاتے ، بہت سے کام ادھورے پڑے رہتے، دودھ ایک طریقے سے کسانوں کا ایندھن تھا ۔ اس زمانے میں کھانے میں تیل کی جگہ گھی استعمال ہوتا تھا ۔ ہر گھر میں اپنے ہاتھوں سے گھی تیار کیا جا تا تھا، گھی کا حلوہ بھی بنا یا جاتا تھا۔
اب گاؤں میں جس کےپاس گائے یا بھینس ہے ، و ہ عام طور پر دودھ فروخت کرتا ہے ،گاؤں میں بہت سوں کے گھر اسی سے چلتے ہیں، ایسے میں وہ اپنےلئے ضرورت سے بھی کم دودھ نکالتے ہیں۔ ان کے پاس اتنا دودھ بچتاہی نہیں کہ وہ اس سے دہی ، مکھن اور گھی بنائیں۔ اس طرح دودھ تو جیساتیسامل رہا ہے لیکن گاؤں میں دیسی گھی مشکل سے ملتاہے ۔    
پہلے دودھ کی فراوانی تھی ، اس کا خرید ار کوئی نہیں تھا ۔ کچھ گھروں میں آج بھی دودھ بیچنامعیوب سمجھا جا تا ہے ، پڑوسی اور رشتہ دار کو ضرورت کے وقت مفت دیاجاتا ہے یا خود استعمال کیا جاتا ہے۔ بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں مرد دودھ نکال کر گھر لاتے تھے ، حالانکہ کچھ عورتیں بھی یہ کام بہت سلیقے سے کرتی تھیں ۔ ’سلیقے سے‘ اس لئے کہ دودھ دوہنابھی ایک فن ہے ، یہ سب کے بس کے بات نہیں  ہے، اس میں جانور کے مزاج کا خیال رکھنا ہوتا ہے ، اس کے بچھڑے کیلئے بھی دودھ بچانا ہوتا ہے۔خیر دودھ کی بالٹی گھرآنے کے بعددودھ کو چھلنی سے چھانا جاتا تھا ، مخصوص مٹی کے برتن یا پتیلی (تلائی) میں اسے رکھا جاتا تھا، پھر چولہے میں گوبر کا اپلا رکھا جا تا تھا،  اس پر مٹی کا تیل چھڑ ک کر آگ جلائی جا تی تھی ، جب اپلادہکنے لگتاتو اس پر دودھ کی پتیلی رکھ دی جاتی تھی ، اس پردھیمی دھیمی آنچ میں دودھ اتناپکتا تھاکہ سرخ ہوجاتاتھا ،گاڑھا ہوجاتا تھا، میٹھا اور لذیذ بھی ، اس میں موٹی بالائی تیرنے لگتی تھی ۔ اب اس کے ٹھنڈا ہونے پربالائی نکالی جاتی تھی ،اسے ایک برتن میں جمع کیا جاتاتھا جو کچھ دن میں دہی بن جاتا تھی، پھر اس سےمکھن نکالا جاتاتھا،یہ عمل دلچسپ  تھا ۔ دہی میں تھوڑا تھوڑا پانی ڈال کر ایک مخصوص لکڑی(گجہڑی) گھمائی جاتی، باربار ایساکرنے سےلکڑی کےاوپری حصے میں مکھن جمع ہوتا تھا۔جو بچ جاتا تھا، وہی مٹھا (چھاچھ)ہوتا تھا۔ یہ گرمی کا خاص مشروب تھا ، اس میں گڑ ملا کر پیا جاتا تھا ۔ لوگ اسے خود بھی پیتے تھے ، پڑوسیو ں اور دوستوں یاروں کو بھی پلا تے تھے ۔پرانے لوگ آج بھی اس کی اہمیت کا احساس دلا تے ہیں۔ وہ کہتے تھے :’’ خالص مٹھا پینے سے پیٹ ٹھنڈا ہوجاتاتھا،لو نہیں لگتی تھی، پیاس بجھ جاتی تھی ، طبیعت سیر ہوجاتی تھی ،یہ بہت سی بیماریوں سے بھی بچاتا تھا۔ ‘‘
 بات یہیں ختم نہیں ہوتی تھی ،گھی حاصل کرنے کیلئے مکھن کو پکا یا جاتاتھا ،اس میں سے مائع کوالگ کیا جا تا تھا ، یہی گھی ہوتا تھا اور باقی ٹھوس کو الگ کر کے گڑ میں پکایا جاتا تھا، اسے پوروانچل میں ’جھائیں‘ کہاجاتاہے ۔ اسی طرح دودھ کے برتن کے کنارے کنارے بھی ملائی جمع ہو جاتی تھی ، برتن خالی ہونے کے بعد یہ ملائی بچوں کے حصے میں آتی تھی ۔خاص مہمانوں کی ضیافت کیلئے دودھ کی بر فی اور خالص گھی میں چنے کا حلوہ بنایا جاتاتھا ۔ گویاگاؤں میں دودھ کے اتنے  مصنوعات ،پکوان اور اس کے اتنے استعمال تھے کہ بھینس یا گائے رکھنا لازم  تھا، ان کے بغیر گاؤں کی زند گی ادھوری تھی ۔

   17
17 Comments

Simran Bhagat

09-Sep-2022 05:19 PM

بہت خوبصورت

Reply

Gunjan Kamal

09-Sep-2022 03:25 PM

👌👏

Reply

Asha Manhas

09-Sep-2022 03:23 PM

بہت عمده🔥🔥

Reply